یادوں کا وہ ہجوم ہی بے جان کر گیا
ہونتوں کو میرے درد کی مسکان کر گیا
میں نید کے خمار سے یک دم نکل گئی
اک خواب میری آنکھ کو حیران کر گیا
جب سے نگاہِ ناز نے بدلے ہیں سلسلے
کاجل مری نگاہ کو ویران کر گیا
چھوڑی ہے جب سے پیار کے گلشن کی وہ گلی
جو میرے گھر میں پھول تھے گل دان کر گیا
کیسی یہ اس نے پیار پہ لکھی ہے اک غزل
جس کو شبِ حیات کا عنوان کر گیا
اچھے دنوں میں ساتھ تھا وشمہ جی آپ کا
مشکل کے وقت راستہ سنسان کر گیا